
اِک گھڑی ہم بھی مُسکرائیں گے
راستے میں ہے دل کے جو حائل
کس طرح، اس کو ہم ہٹائیں گے؟
تیری خوشبو کو، تیرے پیار کو ہم
اب بتا، کس طرح بھلائیں گے
ذکر تیرا نہ ہو جو اس لب پر
لوگ کہتے ہیں، مر ہی جائیں گے
ہم میں اِک آس اب بھی باقی ہے
تیرے دل میں جگہ بنائیں گے
توڑ کر سارے زمانے کے حدود
ہم تیرے ساتھ چلتے جائیں گے
کرکے سنگھار تیری خواہش پر
سب رقیبوں کے دل جلائیں گے
تو جو ہوگا نہیں، تو پہلو میں
تیرے خیال کو بٹھائیں گے
چوڑیوں کی کھنک سے، ہر صبح
تجھ کو خوابوں سے ہم جگائیں گے
ہر ستم کےلیے تیار ہیں ہم
کوئی شکوہ نہ لب پر لائیں گے
وعدہ سدرہؔ کا آخری یہ سطر
تجھ کو اب اور نہ ستائیں گے

🖤🌺🌼🌸